زندگی تیری ساری ہے ڈھل گیی
-
نا بن بندیا دھن کا جنونی، مال داروں کو پوجے ہے کیوں تو
صحت تیری ہےجھڑتا جنگل، چڑھتی جوانی اس میں نکل گیی
-
میں، بس میں“ میں کیا ہے پایا، تیری میں ہے بس اک دھوکہ”
اس دھوکے میں ڈرتے، کڑھتے، عمر تیری کی شام بھی ڈھل گیی
-
جب کچھ پایا، جب تو جیتا، کتنے معصوم تھے تجھ سے ہارے
پالی جو دولت، آگے بے وقعت، بس اس دنیا میں ہی چل گیی
-
دولت تیری سے بینک تو بھر گیے، نفس تیرا پر اتنا مفلس
دولت، شہرت، اور حسن جو دیکھا، نیت تیری اندر سے مچل گیی
-
جو تیرا ہے، کسی اور گا ہوگا، روح تیری بس تیری رہے گی
روح کا جانا بھی اٹل حقیقت ،گر آج نہیں تو کل گیی
-
الله کے توکل کو کافی رکھ ، یہاں کے سب راہی ہیں رہزن
جس نے رب کی رسی ہے تھامی، وہ سواری بس سنبھل گیی
-
- خواجہ بلال حسین